املا نامہ

مقدّمہ طبعِ ثانی

املا نامہ کا پہلا ایڈیشن دو ہزار کی تعداد میں ۱۹۷۴ میں شائع ہوا تھا، اور ہاتھوں ہاتھ نکل گیا۔ املا نامہ کا جو پُر جوش خیر مقدم کیا گیا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مسئلے پر توجہ کی کتنی شدید ضرورت تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان اور پاکستان میں یہ مسئلہ سب کی نگاہوں کا مرکز بن گیا، اور رسائل و جرائد میں بحثوں اور تبصروں کا تانتا بندھ گیا۔ املا نامہ کے سلسلے میں بالعموم املا کمیٹی کو مبارک باد دی گئی اور ترقّی اردو بورڈ کے اس اقدام کی ستائش کی گئی، لیکن جہاں املا نامہ کے سائنسی انداز، اختصار اور جامعیت کی داد دی گئی اور کہا گیا کہ ”یہ ایک وقیع کمیٹی کی سفارشات ہیں جن کی حیثیت سنگِ میل کی ہے۔ اور قدم قدم پر رہنمائی کا حق ادا کیا گیا ہے“ وہاں سخت سے سخت تنقید بھی کی گئی اور بعض سفارشات سے اختلاف کرتے ہوئے ان پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کیا گیا، بالخصوص مولانا عبد الماجد دریا بادی، ڈاکٹر صفدر آہ، پروفیسر ہارون خان شیروانی، مولانا شہاب مالیر کوٹلوی، سیّد بدر الحسن، حیات اللّٰہ انصاری، پروفیسر گیان چند جین، علی جواد زیدی، سید شہاب الدین دسنوی، ڈاکٹر خلیق انجم، حسن الدین احمد، ڈاکٹر شکیل الرّحمان، ڈاکٹر عبد السّتار دلوی، راج نرائن راز، کرشن موہن، ڈاکٹر عابد پشاوری، ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ، ڈاکٹر علیم اللّٰہ حالی، ڈاکٹر سیفی پریمی، رشید نعمانی اور وقار خلیل نے کئی کئی قسطوں میں نہایت بے لاگ تحقیقی تبصرے لکھے اور علمی تجزیے کا حق ادا کیا۔ ان میں سے بعض تبصرے پاکستان کے رسائل نے بھی نقل کیے۔ املا نامہ کے آخر میں چونتیس اہم تبصروں کا گوشوارہ درج ہے اور عمومی آرا کی تلخیص بھی دے دی گئی ہے تا کہ اس ردِّ عمل کا اندازہ کیا جا سکے جو املا نامہ کی اشاعت سے ہوا۔ تمام مبصرین کا شکریہ واجب ہے کہ انھوں نے انتہائی محنت اور دلسوزی سے اس مسئلے پر توجہ صرف کی۔ یہ حقیقت ہے کہ اتنے کسی چھوٹی کتاب پر تبصرے نہیں لکھے گئے جتنے املا نامہ پر لکھے گئے۔

ڈاکٹر عبد العلیم مرحوم جنھوں نے اپنے شوقِ خاص سے اور شہباز حسین سابق پرنسپل پبلیکیشنز آفیسر کے توجہ دلانے سے اس کام کا آغاز کیا تھا۔ املا نامہ پر تبصروں کی فائل مجھ کو بھجوا کر فرمائش کی کہ ان تبصروں کی مدد سے ہر سفارش کے بارے میں نام بنام اختلافی نکات کی رپورٹ تیار کر دوں تا کہ املا نامہ پر نظرِ ثانی کا کام شروع کرایا جا سکے۔ یہ اختلافی رپورٹ املا نامہ کے کُل صفحات سے کسی طرح کم نہیں تھی۔ اب کے علیم صاحب نے کمیٹی کی توسیع کی اور پہلی کمیٹی کے تین اراکین کے علاوہ پروفیسر مسعود حسین خاں، حیات اللّٰہ انصاری، مالک رام، پروفیسر گیان چند جین، پروفیسر خواجہ احمد فاروقی، پروفیسر محمّد حسن، ڈاکٹر خلیق انجم اور سیّد بدر الحسن کو بھی دعوت دی۔ ڈاکٹر سیّد عابد حسین مرحوم بوجہ علالت شرکت نہ فرما سکے اور پروفیسر گیان چند جین صرف ایک جلسے میں شریک ہو سکے، لیکن جین صاحب کا مفصّل تبصرہ کمیٹی کے پیشِ نظر رہا۔ اگرچہ اُس زمانے میں ڈاکٹر عبد العلیم کی صحّت خراب رہنے لگی تھی، اس کے باوجود انھوں نے ہر اجلاس کی صدارت کی ذمہ داری کو پوری دلجمعی سے انجام دیا، اور گھنٹوں بحثوں میں حصّہ لیا۔ اس توسیع شدہ کمیٹی کے تین پُر جوش اجلاس رام کرشنا پور میں علیم صاحب کے دفتر میں منعقد ہوئے، تھوڑا سا کام باقی تھا کہ اچانک بلاوا آ گیا اور علیم صاحب نے داعی اجل کو لبّیک کہا۔ چنانچہ یہ کام جوں کا توں دھرا رہا۔ کئی برس کی خاموشی کے بعد جب ترقی اردو بیورو کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے شمس الرّحمان فاروقی کا تقرّر ہوا تو علاوہ دوسرے کاموں کے، املا کی معیار بندی پر بھی توجہ ہوئی، اور اس بارے میں انھوں نے ورکشاپ کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ چونکہ عربی سے متعلق کچھ امور تصفیہ طلب تھے، اس لیے ڈاکٹر نثار احمد فاروقی سے بھی مشورہ کیا گیا۔ اس ورکشاپ کے تین بھرپور اور طویل اجلاس ترقی اردو بیورو کے دفتر میں منعقد ہوئے جو صبح سے شام تک جاری رہے۔ ہر ہر سفارش کو بار بار دیکھا اور پرکھا گیا۔ املا نامہ طبع اوّل کی سفارشات، انجمن ترقی اردو کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کی اصل تجاویز، ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے بنیادی کام، رشید حسن خان کی تصنیف، حفیظ الرّحمان واصف کی تنقیدی کتاب، اور املا سے متعلق ڈاکٹر ابو محمد سحر اور دیگر حضرات کے مضامین، تبصروں اور بحثوں کو سامنے رکھا گیا۔ چلن، استعمالِ عام اور مروّجہ طریقوں کو پوری اہمیت دی گئی، اور خاصے غور و خوض اور بحث و تمحیص کے بعد انتہائی معروضی طور پر فیصلے کیے گئے، اور جہاں ضروری تھا لسانی و صوتی توجیہ کو انتہائی مختصر طور پر لیکن واضح الفاظ میں درج کر دیا گیا۔ کئی جگہ اصولوں اور قاعدوں میں ترمیم و تنسیخ کی گئی۔ بعض توجیہات بدلی گئیں۔ بعض مقامات پر از روئے اصل حک و اصلاح کی گئی تو بعض اور رواج کو بنیادی حیثیت دینے کی وجہ سے تبدیلی کرنی پڑی، کئی شقیں حذف کر دی گئیں، چند ایک کا اضافہ بھی ہوا اور کچھ گوشواروں کو یکسر بدل دینا پڑا۔ غرض املا نامہ کے نظرِ ثانی شدہ ایڈیشن میں ترمیم و تنسیخ اور اصلاح و اضافے کا عمل جگہ جگہ دکھائی دے گا اور یہ ضروری بھی تھا۔

ورکشاپ کے جلسوں کی صدارت شمس الرّحمان فاروقی نے کی۔ اگر وہ دلچسپی نہ لیتے تو یہ کام خدا جانے کب تک سرد خانے کی زینت بنا رہتا۔ انھوں نے اور ڈاکٹر نثار احمد فاروقی نے اہم مشورے دیے۔ رشید حسن خان تمام بحثوں میں شریک ہوئے۔ اُنھیں بعض نکات پر اصرار تھا لیکن کمیٹی نے اُن سے اختلاف کیا۔

اس وضاحت کی بہرحال ضرورت ہے کہ املا نامہ طبع اوّل ہو یا زیرِ نظر ترمیم شدہ ایڈیشن، سفارشات کی اصل وہی ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی اور مولوی عبد الحق کا کام اور انجمن ترقی اردو کی ’اصلاحِ رسمِ خط کمیٹی‘ کی رپورٹ ہے۔ (مقدمہ طبع اوّل میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ ”زیادہ تر ان اصلاحات کو اپنایا گیا جو انجمن ترقی اردو کی کمیٹی ’اصلاحِ رسمِ خط‘ (۱۹۴۳ تا ۱۹۴۴) نے پیش کی تھیں۔“)

  1. اعلیٰ، ادنیٰ، اولیٰ، معلیٰ، مصلیٰ، معریٰ، مقویٰ، تقویٰ، مصطفیٰ، مطلیٰ، منقیٰ، مدعیٰ علیہ وغیرہ کو الف مقصورہ کے بجائے معمولی الف سے لکھنا چاہیے۔ (عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۰) (انجمن ص ۱۱۵، ۱۱۹)
  2. وہ عربی لفظ (یا نام) جو خود عربی میں دو طرح لکھے جاتے ہیں، ان کو اردو میں الف سے لکھنا چاہیے: رحمان، سلیمان، ابراہیم، اسماعیل، لقمان، (ص ۱۱۴، ۱۱۹) عیسا، موسا، مصطفا، مرتضا، صغرا، کبرا (انجمن ص ۱۱۵)
  3. شوربا، ناشتا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۵۸) تمغا، حلوا، سقّا، (عبد السّتار صدّیقی، ص ۵۹) کو الف سے لکھنا چاہیے، اسی طرح تماشا، تقاضا، ماجرا، مدّعا، معماّ، تبرّا، تولّا، مربّا، بقایا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۰) (انجمن ص ۱۱۵)
  4. علحدہ / علاحدہ کی بحث (انجمن ۱۱۵)
  5. وصل کا الف لام باقی رہنا چاہیے (انجمن ص ۱۱۳)
  6. عربی کی ۃ (تائے مُدوّرہ) کو اردو میں ہمیشہ ت سے لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۵۵، ۵۶)
  7. ت / ط کی بحث: طپش، طپیدن، طشت، طشتری، طوطا، طوطیا، طمانچہ، طلاطم، طیّاری کو ط سے نہیں، ت سے لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۸)
  8. ذ یا ز کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۵)
  9. گذشتن (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۵)
  10. پذیرفتن (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۵)
  11. پذیرا (ایضاً ص ۶۵)
  12. آذر (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۶) آزر (ایضاً ص ۶۶)
  13. زخار (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۶)
  14. آزوقہ (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۶)
  15. ذات (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۶) زات کی سفارش نہیں مانی گئی (ایضاً ۶۶)
  16. ذرہ، زرہ (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۷)
  17. ازدحام، اژدحام کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۸)
  18. ہائے مختفی: تمام دیسی لفظوں کو جو عربی فارسی کی نقل میں خواہ مخواہ مختفی ہ سے لکھے جاتے ہیں، الف سے لکھنا چاہیے: آنولا، بھروسا، باجا، بٹوا، بلبلا، دھوکا، باڑا، پٹاخا، پٹارا، چبوترا، راجا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۵۷)
  19. یورپی الفاظ بھی الف کے ساتھ: ڈراما، فرما، کمرا، مارکا، (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۵۷)
  20. عربی فارسی لفظوں کی تصریفی شکلیں: ان سب لفظوں کے آخر میں الف لکھنا چاہیے جو ایک اردو اور ایک فارسی یا عربی جز سے بنے ہیں: بدلا، بے فکرا، نو دولتیا، کبابیا، مسالا، ملیدا، دسپنا، (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۵۷) تماہا، چھماہا، پچرنگا، سترنگا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۵۸) دو ماہا (ایضاً ۶۱)
  21. پٹنہ، آگرہ، کلکتہ شہروں کے ناموں کو جوں کا توں لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۵۶)
  22. مسالا کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۵۷)
  23. گنبد، زنبور، شنبہ، تنبورہ جیسے عربی فارسی لفظوں میں ن ساکن کے بعد ب آئے تو اصل کی پیروی کرنی چاہیے، نہیں تو میم لکھا جائے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۴)
  24. نون غنّہ کے لیے اُلٹے قوس کا استعمال مولوی عبد الحق نے انجمن ترقی اردو کی مطبوعات کے ذریعے رائج کیا تھا۔
  25. گانو، پانو، چھانو، دانو میں نون غنّہ کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۲)
  26. پردے، جلوے: محروف شکلوں میں ے لکھنی چاہیے، وہ چھٹے درجے میں پڑھتا ہے، میں مدرسے جاتا ہوں (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۱)
  27. ہمزہ: ابتدا، انتہا، ارتقا، استدعا، استغنا میں ہمزہ نہیں لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۵۹)
  28. بنا و سنگار، دیو، بھاو، تاو، نبھاو، گھماو میں ہمزہ کا کچھ کام نہیں (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۳)
  29. گاے، چاے، راے، ہاے میں بھی ہمزہ نہ چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۳)
  30. ہمزہ اسی وقت آئے گا جب اس سے پہلے زبر ہو، اگر زیر ہو تو یائے لکھی جائے گی۔ دیے، لیے، کیے، چاہیے، دیجیے، لیجیے میں ہمزہ نہیں لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۳، ۶۴)
  31. گنتیاں: دونو غلط دونوں صحیح (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۳)
  32. چھے کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۱)
  33. گیارہ سے اٹھارہ تک آخر کا حرف ہ ہے۔ ان کو ہ سے لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص ۶۲، ۶۳)
  34. لفظوں میں فاصلے اور لفظوں کو ملا کر یا الگ الگ لکھنے کی بحث۔ مرکّب لفظ جو دو یا زیادہ لفظوں سے بنے ہوں، آپس میں ملا کر نہ لکھے جاویں (انجمن ۱۱۱، ۱۱۸)
  35. مفرد لفظوں کے تکراری اجزا کو الگ الگ لکھنا چاہیے۔ بی بی، دُل دُل، جھُن جھُنا، کن کنا، گل گلا، کھٹ کھٹاہٹ (انجمن ۱۱۱، ۱۱۸)
  36. فارسی لاحقے اردو عبارت میں الگ لکھنے چاہییں: بہ خوبی، بہ ہر حال، بہ دولت، نہ گفت، بہ قول، تا وقتے کہ (انجمن ۱۱۲)
  37. انگریزی کے صوتی ٹکڑوں کو الگ الگ کر کے لکھنا چاہیے، اِن فارمل، ان سٹی ٹیوٹ، کان فرنس، یو نی ورسٹی (انجمن ۱۱۵، ۱۱۹)
  38. اعراب (حرکات و سکنات) کی بحث (قواعدِ اردو، مولوی عبد الحق، ص ۴۳، ۵۰)
  39. رموزِ اوقاف کی بحث (مولوی عبد الحق، ص ۳۳۸، ۳۵۴)
  40. اعراب میں واؤ معروف کے لیے اُلٹا پیش اور یائے معروف کے لیے کھڑا زیر مولوی عبد الحق نے رائج کیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ وہ اصول ہیں، جو املا نامہ کی زیادہ تر سفارشات کی بنیاد ہیں، ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی نے اور بھی بہت سے اصول پیش کیے جن کو مندرجہ بالا فہرست میں عمداً شامل نہیں کیا گیا، اس لیے کہ وہ اصول و تجاویز ان کی زندگی میں ہی رد ہو گئیں، مثلاً بالکل کو بلکل یا خوش خُش لکھنا، یا نون غنّہ کو منفصل لکھنا جیسے پھان س، بان س، یا ی کو بھی مثل الف اور واؤ الگ لکھنا، جیسے بی ن، بی ر، پی ر، یا ہمزہ جب منفصل حرف کے بعد آئے تو اس کو جدا لکھنا، جیسے لا ء ی، جا ءی، یا ’ڑھ‘ کو ’ڑ ھ‘، ’ڈھ‘ کو ’ڈ ھ‘ لکھنا وغیرہ۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی فاضلِ اجل تھے۔ نیز مولوی عبد الحق جو انجمن کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کے روحِ رواں تھے، اور برج موہن و تاریہ کیفی جو اس کمیٹی کے رکن تھے، دونوں عالمِ بے بدل تھے۔ ان اور دوسرے حضرات نے جو اصول بنائے ہوں گے اور تجویزیں پیش کی ہوں گی، پوری ذمہ داری اور پورے غور و فکر کے بعد کی ہوں گی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ان میں سے متعدد اصول زمانے نے رد کر دیے۔ ہر زبان کا ایک لسانی مزاج ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اردو کے لسانی مزاج نے ان اصولوں کو رد کر دیا جو اس سے لگّا نہیں کھاتے تھے، اور صرف ان اصولوں کو قبول کیا جو اس سے ہم آہنگ تھے۔ ان اصلاحات کو پیش ہوئے تقریباً نصف صدی گزرنے کو آئی ہے۔ علم کا افق روز بروز وسیع ہو رہا ہے۔ چنانچہ ترقی اردو بورڈ نے ڈاکٹر سیّد عابد حسین کی صدارت میں جب املا کمیٹی تشکیل کی، اور راقم الحروف کو اس کا رکن نامزد کیا، تو خاکسار نے اس کام کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا، کیونکہ مجھے احساس تھا کہ وہ زبان جس کی صوتیات، صرفیات اور نحویات یعنی ہر ہر سطح پر تین تین لسانی خاندانوں کے اثرات یعنی ہند آریائی، ایرانی اور سامی اثرات بیک وقت کار فرما ہوں، اور اختلاط و امتزاج کی قوس قزح پیش کرتے ہوں، اس کے رسمِ خط کے ان گنت اجزا میں مطابقتیں تلاش کرنا اور انھیں کُلّیوں کے تحت لا کر سیدھے سادے اصولوں میں بیان کرنا خاصا دقت طلب کام ہے۔ اس راہ کے مسافر کو ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے کام سے تقویت ضرور پہنچتی ہے لیکن یہ بھی معلوم تھا کہ انتہائی نیک نیّتی اور گہرے لسانی شعور پر مبنی اُن کی کئی اصلاحات کو اردو نے گوشۂ چشم سے دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ بہرحال ان پیچیدگیوں اور مشکلات کے گہرے احساس کے ساتھ راقم الحروف نے اس کام کو ہاتھ میں لیا۔ ڈاکٹر عبد العلیم اور ڈاکٹر سیّد عابد حسین کی کرم گستری تھی کہ اُنھوں نے یہ ذمہ داری خاکسار کو سونپی۔ جیسا کہ پہلے وضاحت کی جا چکی ہے، کمیٹی نے نہ صرف ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی اور انجمن کے کام کو سامنے رکھا، بلکہ اس وقت تک مختلف حضرات نے متعلقہ مسائل پر جو کچھ بھی لکھا تھا، اس کا بغور مطالعہ کیا گیا، نیز رشید حسن خان جو کمیٹی کے رکن بھی تھے، ان کے کام اور مشوروں سے بھی استفادہ کیا گیا، تا ہم جس طرح ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی اور انجمن کی اصلاحات کو مِن و عَن قبول نہیں کیا گیا، رشید حسن خان کی کئی باتوں سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکا۔ ہر ہر سفارش پر کھُل کر گفتگو ہوئی اور پوری بحث و تمحیص کے بعد تجاویز کو یا تو رد کیا گیا، یا از سرِ نو لکھا گیا، یا قبول کیا گیا۔ خاکسار کی کوشش رہی ہے کہ سفارشات پیش کرتے ہوئے اختصار ملحوظ رہے، زبان زیادہ سے زیادہ سادہ ہو، اور جہاں ضرورت ہو لسانی سائنٹفک توجیہ کو آسان سے آسان لفظوں میں پیش کر دیا جائے۔ اردو میں غُنیت، ہکاریت اور ہمزہ کے مسائل نہایت پیچیدہ ہیں۔ ان کے بارے میں مختصر لسانی وضاحتیں ضروری خیال کی گئیں۔ مصوتی اعراب کے تحت اردو کے دس مصوتوں کے لیے جو مکمل اعرابی نظام پیش کیا گیا ہے، وہ اب تک کے پیش کردہ طریقوں میں سب سے زیادہ سہل اور سائنٹفک ہے۔ ڈاکٹر سیّد عابد حسین (مرحوم) اور ڈاکٹر عبد العلیم (مرحوم) نے ان لسانی وضاحتوں کو نہ صرف پسند کیا بلکہ ان پر صاد کیا۔

املا نامہ کا دوسرا ایڈیشن پہلے ایڈیشن سے کئی باتوں میں مختلف ہے۔ صاحب الرّائے اور صاحبِ علم مبصرین کی اکثریت نے جن تجاویز سے اختلاف کیا تھا، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق الف مقصورہ، نون اور نون غنّہ، ہائے خفی، ت، ط اور ہمزہ اور اضافت کے مسائل سے تھا، اس لیے ان شقوں میں تبدیلیاں ضروری تھیں۔ یوں تو ہر ہر سفارش پر نظرِ ثانی کی گئی ہے، کہیں وضاحتوں میں ترمیم و اضافہ ہوا ہے تو کہیں مثالوں میں الفاظ کو بدلا گیا ہے۔ لیکن جن بنیادی تبدیلیوں کی وجہ سے املا نامہ کا یہ ایڈیشن پہلے سے مختلف ہو گیا ہے، ان میں خاص خاص یہ ہیں:

اُدھر پاکستان میں بھی اردو املا کی معیار بندی کے سلسلے میں پیش رفت ہوئی ہے، ڈاکٹر وحید قریشی کے زیرِ سرکردگی مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد کے زیرِ اہتمام ایک سہ روزہ سیمینار ”املا اور رموزِ اوقاف کے مسائل“ ۲۳ تا ۲۵ جون ۱۹۸۵ منعقد ہوا۔ اس سیمینار کی روداد مقتدرہ کے ”اخبارِ اردو“ کے جنوری ۱۹۸۶ کے شمارے میں شائع ہوئی۔ نیز ان تمام مقالات اور مباحث کو مقتدرہ نے کتابی طور پر بھی شائع کر دیا ہے (املا و رموزِ اوقاف کے مسائل، مرتبہ اعجاز راہی، اسلام آباد، ۱۹۸۵) اس سیمینار میں املا سے متعلق چودہ سفارشات پیش کی گئیں، یہ چونکہ مفصّل نہیں تھیں، ان کی تفصیلات مرتب کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں ذیل کے اراکین تھے:

  1. ڈاکٹر فرمان فتح پوری
  2. پروفیسر شریف کنجاہی
  3. مظفر علی سیّد
  4. ڈاکٹر خواجہ محمّد ذکریّا
  5. ڈاکٹر ممتاز منگلوری
  6. ڈاکٹر محمّد صدیق شبلی (سیکریٹری)

اس کمیٹی کے اجلاس ۲۲، ۲۳ اور ۲۴ اکتوبر ۱۹۸۵ کو راولپنڈی میں منعقد ہوئے۔ سیمینار کی سفارشات پر غور کیا گیا، اور ہر سفارش کے بعد مثالیں درج کی گئیں۔ اور بعض مسائل جو پہلے سفارشات میں شامل نہیں تھے، انھیں بھی زیرِ بحث لا کر کُل ۲۴ سفارشات منظور کی گئیں۔ یہ سفارشات ”اخبارِ اردو“ جنوری ۱۹۸۶ میں صفحہ ۱۵ سے ۲۲ پر شائع ہوئی ہیں۔

پاکستانی سفارشاتِ املا میں زیادہ تر املا نامہ طبعِ اوّل کی سفارشات پیشِ نظر رہی ہیں۔ البتہ بعض جگہ الگ ترجیحات بھی قائم کی گئی ہیں۔ لطف کی بات ہے کہ املا نامہ کی نظرِ ثانی کمیٹی نے جن تبدیلیوں پر اصرار کیا تھا، مثلاً گاؤں، پاؤں (اسما)، مہندی، مہنگی میں نون غنّہ کو چلن کے مطابق لکھنا، یا بچاؤ، پتھراؤ، نیز گائے، چائے، رائے، جائے (اسما) کو ہمزہ کے ساتھ لکھنا، یا اردوئے معلیٰ، بوئے گُل میں اضافت کی یائے پر ہمزہ کو برقرار رکھنا، یا آزمائش، نمائش کو ہمزہ کے ساتھ لکھنا، یا بلکہ، چونکہ، چنانچہ کو توڑ کر نہ لکھنا، پاکستانی سفارشوں میں بھی چلن کے ان تمام مقامات کی تائید کی گئی ہے، البتہ کچھ سفارشات میں چلن کو نظر انداز بھی کیا گیا ہے، مثلاً الف مقصورہ کو زیادہ سے زیادہ برقرار رکھا ہے، یا کلیۃً، ارادۃً میں تنوین کو تائے مدوّرہ پر لکھنے کی سفارش کی ہے، یا گزارش، گزرنا، گزارنا، باج گزار، خدمت گزار، جیسے لفظوں کو بھی ذال سے لکھنے پر اصرار کیا ہے۔ اردو مصوتوں کے اعراب کی نشان دہی ضروری تھی، اس پر توجہ نہیں کی گئی۔ سوائے ان امور کے باقی سفارشات تقریباً وہی ہیں، اور اُسی ڈھانچے کو برقرار رکھا گیا ہے۔

املا نامہ کے نظرِ ثانی شدہ ایڈیشن کے لیے ڈاکٹر فہمیدہ بیگم، ترقی اردو بیورو کی موجودہ ڈائریکٹر کا شکریہ بھی واجب ہے کہ جب سے اُنھوں نے چارج سنبھالا ہے، املا نامہ کے نئے ایڈیشن کے لیے تقاضا کرتی رہی ہیں۔ میری دوسری مصروفیات نے ادھر توجہ کا موقع ہی نہ دیا۔ ادھر سٹینڈنگ کمیٹی اور ترقی اردو بورڈ نے ریزولیوشن کر دیا تو اُن کی طرف سے تقاضا شدید ہو گیا۔ اُن کا میں ممنون ہوں کہ اس طرح یہ کام جو کئی برس سے ادھورا رکھا ہوا تھا، پورا کرنا پڑا۔ ادھر ستمبر میں کشمیر یونی ورسٹی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہاں کی پُر سکون فضا میں کچھ وقت نکال کر میں مسوّدے کو آخری شکل دے سکا۔ پروفیسر حامدی کاشمیری کی دوست داری اور کرم فرمائی کا ایک مدت سے قائل ہوں۔ ان کا اور شعبۂ اردو کشمیر یونی ورسٹی کے رفقا کا ممنون ہوں کہ ان کی عنایت اور تعاون سے یہ ادھورا کام سری نگر میں تکمیل کو پہنچا۔

آخر میں یہ اعادہ ضروری ہے کہ املا نامہ کی سفارشات اس احساس کے ساتھ مرتب کی گئی ہیں کہ زبان اور اس کے تمام طواہر کسی فرد واحد، ادارے یا انجمن کے تابع نہیں۔ زبان ایک وسیع تر عمرانیاتی نظام کا حصہ ہے جو عوامی ضرورتوں اور رواج چلن سے وجود میں آتا ہے اور جس کی پُشت پر صدیوں کے تاریخی اور لسانیاتی ارتقا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ زبان اور رسم الخط میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی کوئی فردِ واحد، کمیٹی یا انجمن یا ادارہ جبراً مسلط نہیں کر سکتا۔ تبدیلیاں تو ہوتی ہیں لیکن یہ زبان کے خاموش عمرانیاتی عمل کے تحت از خود رونما ہوتی ہیں۔ کمیٹیاں اور ادارے صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ کسی مسئلے کے بارے میں احساس و شعور کو بیدار کر دیں اور آگہی کی فضا پیدا کر دیں تا کہ انتشار دور ہو۔ چنانچہ یہ سفارشات بھی تجاویز ہیں، سرکاری حکم نامہ نہیں، اور اس توقع کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں کہ ان سے املا کی معیار بندی کے لیے احساس و شعور کی بیداری کا عمل تیز تر ہو گا اور آگہی کی فضا پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ زبان ایک زندہ حقیقت ہے جس میں تبدیلیوں کا عمل جاری رہتا ہے، چنانچہ اصولوں میں اتنی لچک بہرحال ہونی چاہیے کہ زبان کے وسیع تر چلن اور آئندہ ضرورتوں کا ساتھ دے سکیں۔ ہمارا جو فرض تھا، وہ ہم نے ادا کیا، فیصلہ بہرحال زمانہ اور وقت کرے گا۔ و ما توفیقی الّا باللّٰہ

گوپی چند نارنگ
۱۶ ستمبر، ۱۹۸۸
نسیم باغ، سری نگر