املا نامہ

مقدّمہ طبعِ اوّل

اُردو ایک ہند آریائی زبان ہے، لیکن اس کا رسم الخط سامی خاندان کی زبان عربی سے ماخوذ ہے۔ عربی سے اس رسم الخط کو فارسی نے لیا اور فارسی سے یہ اُردو میں آیا۔ صدیوں کے اس تہذیبی اور تاریخی سفر میں اس رسم الخط میں بہت سی تبدیلیاں ہو گئیں۔ اُردو دنیا کی ان چند انتہائی متمول زبانوں میں سے ہے جن کا دامن اخذ و استفادے کے اعتبار سے ایک سے زیادہ لسانی خاندانوں سے بندھا ہوا ہے اس کے ذخیرہ الفاظ کا تقریباً تین چوتھائی حصہ ہند آریائی مآخذ یعنی سنسکرت، پراکرتوں اور اپ بھرنشوں سے آیا ہے، تو ایک چوتھائی حصہ جو دراصل ہند آریائی گروہ کی زبانوں میں اس کے امتیاز و افتخار کا ضامن ہے، سامی اور ایرانی مآخذ یعنی عربی، فارسی زبانوں سے لیا گیا ہے اُردو کے ذخیرہ الفاظ میں جو بے مثل تنوع اور رنگا رنگی ملتی ہے، وہ اُردو صوتیات میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اُردو صوتیات میں ایک پرت تو ہند آریائی آوازوں کی اور اس کے ساتھ ساتھ دراوڑی آوازوں کی ہے۔ اور دوسری اتنی ہی اہم پرت مشرق وسطی کی زبانوں سے ماخوذ آوازوں کی ہے اُردو دنیا کی ان چند ”تہ دار“ زبانوں میں سے ہے جس میں متعدد منفرد اور ممتاز صوتیاتی نظام ایک وسیع تر لسانی پیکر میں ڈھل کر بہ یک وقت کام کرتے ہیں۔ یہ ” کثیر لسانیت“ جہاں اُردو میں ایسی وسعت، لوچ اور لطافت پیدا کر دیتی ہے جو دوسری ہند آریائی زبانوں کے لیے لائق رشک ہے وہاں رسم الخط سے ایسے تقاضے بھی کرتی ہے جن کو پورا کرنا آسان نہیں۔ اُردو جیسی مخلوط و ممزوج زبان کے لیے کسی بھی ایک خاندان کا رسم الخط اپنایا جاتا، دوسرے خاندان کی آوازوں کو ظاہر کرنے کے لیے اس میں نئی گنجائشیں نکالنی ہی پڑتیں۔ چنانچہ زمانہ قدیم میں جب اُردو عربی فارسی رسم الخط میں لکھی جانے لگی تو کئی علامتیں ایسی تھیں جن کے لیے آوازیں نہیں تھیں، اور کئی آوازیں ایسی تھیں، جن کے لیے علامتیں نہیں تھیں۔ وقتاً فوقتا نئی علامتوں کا اضافہ ہوتا رہا، اور تبدیلیوں کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔ زبان کے ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلیاں از خود ہوتی رہیں، اور لکھنے والے اپنے اپنے طور پر لکھاوٹ کی صحت کا التزام کرتے ہے۔ اس وقت کسی معیاری بندی یا ضابطے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، کیونکہ رسم الخط ایک نئی وضع پر آ رہا تھا، اور اُردو کے ”کثیر صوتیاتی“ مزاج سے ہم آہنگ ہونے کا عمل جاری تھا۔

برطانوی اقتدار کے قائم ہو جانے کے بعد مستشرقین اُردو کی طرف متوجہ ہونے شروع ہوئے، اور خصوصاً فورٹ ولیم کالج کے قیام سے کچھ پہلے اور بعد میں بھی جب اُردو لغات اور قواعد کی کتابیں لکھی جانے لگیں تو اُردو رسم الخط کے مطابق صحت سے لکھنے کے مسائل یعنی املا پر بھی توجہ دی جانے لگی۔ جان جوشوا کٹلر، مُل، جان گل کرسٹ، جوزف ٹیلر، ٹامس روبک، جان شکسپئر، ڈنکن فاربس، ایس ڈبلیو فیلن اور جان پلیٹس ان چند مستشرقین میں ہیں جن کے لغات اور صرف و نحو کی کتابوں میں اُردو املا سے باخبری کا گہرا احساس پایا جاتا ہے مستشرقین کی تصانیف میں اکثر اُردو الفاظ یا جملوں کو رومن حروف میں لکھنا پڑتا تھا جس کے لیے اُردو تہجّی اور رومن حروف تہجّی میں مطابقت کا کوئی نہ کوئی نظام قائم کرنا ضروری تھا اس کے علاوہ غیر اہلِ زبان کو اُردو پڑ جانے ک لیے ان قاعدوں اور ضابطوں کو بھی سمجھنے سمجھانے کی ضرورت تھی جن کے مطابق حروف کے جوڑنے سے الفاظ اور عبارت لکھی جاتی ہے مستشرقین کی یہ کوشش تقریباً ایک صدی جاری رہیں لیکن خود اُردو والوں نے ان امور کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی یوں تو انّیسویں صدی میں جب لکھنو کو ادبی مرکزیت حاصل ہو گئی تو دہلی اور لکھنو کی ادبی و لسانی چشمک میں جی کھول کر ہندی کی چندی کی گئی، لیکن زبان کے جن پہلوؤں پر زیادہ توجہ صرف ہوئی، وہ شعر کی زبان سے متعلق تھے ؛ بول چال کی زبان اور نثر کی زبان برابر بے توجہی اور غفلت کا شکار رہی۔ متروکات، تذکیر و تانیث اور صحتِ استعمال ہی کو زبان کی کل کائنات سمجھا جاتا تھا۔

بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے جب اُردو ادب کے قدیم سرمائے کی تلاش و تحقیق کا کام شروع ہوا، اور جن مولوی عبدالحق کے زیرِ نگرانی انجمن ترقی اُردو سے قدیم تذکرے، دواوین اور کلیات مرتب ہو کر شائع ہونے لگے، تو ترتیب و تدوین کے مسائل کے ساتھ ساتھ صحتِ املا کا خیال بھی ذہنوں میں آیا۔ مولوی عبدالحق نے قواعدِ اُردو لکھی اور اسٹنڈرڈ انگریزی اُردو لغت کا کام بھی مکمل کرایا۔ اس دوران میں اُردو کی بے قاعدگیوں کا احساس اور بھی شدید ہوا ہو گا۔ بیسویں صدی میں تین خاص لغات بھی منظرِ عام پر آئے: فرہنگ آصفیہ، سیّد احمد دہلوی؛ نور اللغات، نور الحسن نیّر کاکوروی؛ اور جامع اللغات، فیروز الدّین لیکن سائنسی نظر کے فقدان کی وجہ سے ان میں املا کے مسائل پر وہ توجہ نہ ہو سکی جو ہونی چاہیے تھی۔

اس صدی کی تیسرے اور چوتھی دہائیوں میں تحریک آزادی کی رفتار کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی قومی زبان کا مسئلہ سامنے آیا، اور ”ہندوستانی“ کی تحریک خاصی اہمیت اختیار کر گئی۔ مہاتما گاندھی چونکہ اعلان کر چکے تھے کہ ”ہندوستانی“ کے لیے دیو ناگری اور اُردو دونوں ”لپیوں“ کو اپنایا جائے گا، اس لیے دونوں کو اپنا اپنا گھر سنبھالنے کی فکر ہوئی۔ اُردو میں اس کا اظہار دو طرح سے ہوا۔ اوّل تو یہ کہ اُردو رسم الخط کو خالص صوتی بنیادوں پر سادہ اور سہل بنایا جائے (ڈاکٹر جافرہسن، آسان رسمِ خط، حیدر آباد، ۱۹۴۰) دوسرے یہ کہ اُردو رسم الخط کی جیسا وہ ہے، مدافعت کی جائے۔ (سیّد مسعود حسن رضوی ادیب، اُردو زبان اور اس کا رسم الخط، لکھنو، ۱۹۴۸ء عبد القدوس ہاشمی، ہمارا رسم الخط، انجمن، دلّی (قبل ۱۹۴۷ء) : محمد الیاس برنی، اُردو ہندی رسم الخط، حیدر آباد، ۱۹۴۸ء (؟))

اُردو رسم الخط کی ان بحثوں میں شریک ہونے والی ایک شخصیت ایسی بھی تھی جس نے اپنی صلاحیتوں کا بڑا حصّہ اُردو املا کے لیے وقف کر دیا۔ اُردو والوں کو ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے اُردو املا کے مسائل پر نہ صرف خود لکھا بلکہ دوسروں کو بھی اس کی طرف توجہ دلائی۔ انھوں نے اپنی متعدد تحریروں، خطوں، تبصروں اور مضامین کے ذریعے اُردو املا کے بارے میں برتی جانے والی عام بے توجہی اور بے حسی کو بے نقاب کیا۔ اور املا کے مسائل پر عالمانہ نظر ڈال کر وقتاً فوقتاً اصلاحی تجویزیں پیش کیں۔ ۱۹۴۳ میں جب انجمن ترقی اُردو نے کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط مقرر کی تو مولوی عبدالحق کی دعوت پر اس کا اجلاس ۲۲ مارچ ۱۹۴۳ کو سید ہاشمی فرید آبادی کی ابتدائی تجاویز پر غور کرنے کے لیے انجمن کے دفتر واقع دریا گنج دہلی میں منعقد ہوا جس میں مولوی عبدالحق اور سیّد ہاشمی فرید آبادی کے علاوہ ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی نے مرتب کیا تھا، ۱۶ ستمبر ۱۹۴۳ کو اخبار ہماری زبان میں شائع کی گئیں، اور ۲۱ جنوری ۱۹۴۴ء کو کل ہند اُردو کانفرنس کے ناگ پور اجلاس میں رسمِ خط کی ذیلی مجلس میں پیش ہوئیں یہ تجاویز خاصے غور و مباحثے کے بعد ترمیم و اضافے کے ساتھ منظور کی گئیں اور جنوری ۱۹۴۴ء کے رسالہ اُردو میں شائع کی گئیں۔ (ص ۱۰۳ - ۱۲۰)

کمیٹی اصلاح رسمِ خط کی ان سفارشات پر انجمن ترقی اُردو سے شائع ہونے والی کتابوں اور رسالوں میں عمل ہونا شروع ہی ہوا تھا کہ برِ صغیر کی تقسیم سے اُردو کو ہندوستان میں اپنی زندگی کی نئی کشمکش سے دوچار ہونا پڑا اور املا کی معیار بندی کی کوششوں پر اوس پڑ گئی۔ تا ہم سرکردہ محقّقین اور مصنّفین کے ہاں جن میں ڈاکٹر سیّد عابد حسین، سیّد مسعود حسن رضوی، امتیاز علی عرشی، قاضی عبد الودود، مالک رام، ڈاکٹر نذیر احمد اور ڈاکٹر گیان چند جین کے نام خاص طور پر لیے جا سکتے ہیں، صحتِ املا لا التزام رہا، لیکن بہ حیثیت مجموعی اُردو املا طرح طرح کی بے قاعدگیوں اور بے اعتدالیوں کا شکار رہا۔

اُردو میں املا کے مسائل کئی طرح کے ہیں۔ ان میں سے بعض بنیادی مسائل وہ ہیں جو مستعار الفاظ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، اُردو لفظیات کا امتیازی حصّہ عربی، فارسی سے ماخوذ ہے۔ ان زبانوں سے آنے والے ہزاروں لفظ اُردو میں رچ بس گئے ہیں، اور اُردو کے اپنے ہو چکے ہیں۔ اُردو ایک آزاد اور خود مختار زبان ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں مستعار لفظوں کا طریقِ املا سے مختلف ہے، وہاں اصل کی پیروی کرنی چاہیے یا انھیں اُردو کے قاعدے سے لکھنا چاہیے؟ ایسی ایک مثال ان عربی لفظوں کی ہے جن کے آخر میں ی کے اوپر الف لکھا جاتا ہے۔ جیسے ادنیٰ، اعلیٰ، عیسیٰ، موسیٰ، دعویٰ، اس قبیل کے کئی الفاظ اُردو میں پورے الف سے رائج ہو چکے ہیں۔ مولا، تقاضا، تماشا، تمنا۔ ان کے بارے میں قاعدہ کیا ہونا چاہیے؟

ایسے کئی الفاظ جن میں الف مقصورہ آتا ہے، پہلے ہی عام الف سے لکھے جاتے ہیں، جیسے رحمٰن اور رحمان۔ اسمٰعیل اور اسماعیل، سلیمٰن اور سلیمان، ابرٰہیم اور ابراہیم، مولیٰنا اور مولانا۔ اس املائی دو عملی سے کس طرح بچا جائے، اور اس سلسلے میں کیا اصول اپنایا جائے؟

عربی، فارسی کے کئی الفاظ میں لکھنے میں نون آتا ہے لیکن پڑھا میم جاتا ہے، جیسے گنبد، انبساط، انبوہ۔ ان کی تقلید میں کئی دیسی الفاظ بھی جو میم سے بولے جاتے ہیں، خواہ مخواہ نون سے لکھے جاتے ہیں : اچنبھا، تنبولی، چنپا، چنبیلی۔

اُردو میں سینکڑوں دیسی لفظ مستعار الفاظ کی نقل میں خفی ہ سے لکھے جاتے ہیں۔ غنچہ، کشتہ، زردہ، پردہ میں تو اصلاً ہ ہے، لیکن بھروسہ، ٹھیکہ، بھوسہ، دھبہ، اکھاڑہ، انڈہ، اڈّہ، راجہ، باجہ، گینڈہ، سہرہ، دسہرہ میں اس کا کیا جواز ہے؟ آنکھ کو آنکھہ، ہاتھ کو ہاتھہ، بیٹھ کو بیٹھہ، مجھ کو مجہہ، اور کچھ کو کچہہ عام طور پر لکھا جاتا ہے جو غلط ہے۔ یہ بات بھی عام طور پر معلوم نہیں کہ خفی ہ کی آواز ہ کی نہیں، خفیف مُصوّتہ (مثلاً زبر) کی ہے۔

ذ اور ز کے بارے میں بھی اُردو میں خاصا خلط مبحث ہے۔ قاضی عبد الودود نے اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے کہ مرزا غالب فارسی میں ذال کے وجود کے قائل نہیں تھے۔ اس لیے گزشتن اور پزیرفتن کو صحیح سمجھتے تھے۔ حالانکہ صحیح صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ یہ غلط روش یہاں تک عام ہوئی کہ کئی لوگ گزارش کو گذارش، شکر گزار کو شکر گذار اور گذشتہ کو گزشتہ لکھنے لگے۔

ہمزہ اُردو میں عربی سے آیا۔ عربی میں ہمزہ جس آواز کے لیے استعمال ہوتا ہے، اُردو میں اس کا وجود نہیں کے برابر ہے۔ عربی میں ہمزہ کی حیثیت مُضمتے کی ہے، اُردو میں ہمزہ مصوّتوں کے ساتھ آتا ہے۔ باوجود اس قلب ماہیت کے ہمزہ اُردو املا میں ایسا ناگزیر جزو ہے جس کے بغیر اُردو املا کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اُردو میں ہمزہ کی کیا ضرورت ہے اور ہم ہمزہ کو استعمال کرنے پر کیوں مجبور ہیں، اس کا کوئی واضح شعور ذہنوں میں نہیں۔ ہمزہ کےاستعمال کے سلسلے میں اُردو میں بڑی بے اعتدالیاں برتی جاتی ہیں، مثلاً عربی کے کئی الفاظ کے آخر میں اصلاً ہمزہ ہے، جیسے ابتداء، انتہاء، علماء، فضلاء، قدماء، ادباء، حکماء۔ اُردو میں یہ الفاظ چونکہ ہمزہ کے خاص تلفّظ کے ساتھ رائج نہیں، ان ہمزہ کا استعمال کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اسی طرح چاہیے، لیے، کیے، پیے، جیے، کو چاہیئے، لئیے، کئے، دئے، پئے، جئے بھی لکھا جاتا ہے۔ نیز دیجئے، کیجئے، لیجئے وغیرہ افعال کی تصریفی صورتوں میں بھی ہمزہ کے معاملے میں خاصا انتشار ہے۔ بعض لوگ انھیں ی سے لکھتے ہیں، بعض ہمزہ سے، اور بعض دونوں سے۔ اضافت کے لیے بھی ہمزہ کی غلط نگاری عام ہے۔ اس بات کا شعور عام نہیں کہ نغمہ شب، جلوہ مجاز اور کشتہ ناز میں ہمزہ کیوں لکھنا چاہیے اور ماہِ نو، تہِ دریا اور نگاہ دل نواز میں اضافت کیسے ظاہر کی جائے گی۔

املا کے کئی مسائل ایسے ہیں جن کا تعلق اُردو کی صوتیات سے ہے۔ ایک ہمہ گیر زبان میں جو ملک بھر کے دور دراز خطّوں، علاقوں اور شہروں میں بولی جاتی ہو، مقامی اثرات کا لہجے اور تلفّظ کے اختلاف میں ظاہر ہونا قدرتی بات ہے۔ املا کا کام معیاری تلفّظ کا اظہار ہے۔ لیکن بعض مثالیں ایسی بھی مل جاتی ہیں، جہاں ایک سے زیادہ معیاری شکلیں موجود ہیں۔ اور دونوں طرح کے تلفّظ کی سند مل جاتی ہے۔ ایسی صورتوں میں فیصلہ کیا ہونا چاہیے؟

اُردو صوتیات میں ہکار آوازوں کی خاص اہمیت ہے۔ اُردو میں ان کے لیے الگ سے حروف نہیں، لیکن ان کے اظہار کا اطمینان بخش طریقہ موجود ہے۔ (پھ بھ، تھ د ھ، ٹھ ڈ ھ، چھ جھ، کھ گھ، ڑ ھ)۔ پھر بھی یہ صوتی تصوّر ابھی تک پوری طرح ذہن نشین نہیں ہو سکا کہ ہائے مخلوط کو ہکار آوازوں کے لیے مخصوص کر دینا چاہیے ہے کو ھے، چاہیے کو چاھیے، ہی کو ھی یا مجھ کو مجہہ۔ بیٹھ کو بیٹہہ اور آٹھ کو آٹہہ لکھنے کی روش قدیم زمانے سے چلی آتی ہے۔ اور تو اور، گھر اور گہر، بھر اور بہر، پھر اور پہر، پھاڑ اور پہاڑ، بھاری اور بہاری، بھن اور بہن یا دھلی اور دہلی میں امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔

نون غُنہ خالص اُردو کی چیز ہے۔ عربی میں نون غُنہ نہیں، قدیم و جدید فارسی میں اس کا وجود کہیں ہیں، کہیں نہیں ہے۔ اُردو میں ہم نون کا نقطہ اُڑا کر اس کو غُنیت کے لیے کام میں لاتے ہیں، جبکہ لفظ کے بیچ میں نقطہ ضروری ہے۔ حرف و صوت کی اس عدم مطابقت سے کہیں کہیں دقّت پیدا ہوتی ہے، اُردو میں کئی لفظ ایسے ہیں جن کے بارے میں عام طور پر یہ معلوم نہیں کہ ان میں نون غُنہ کا صحیح مقام کیا ہے۔ لفظ گا نو بہ معنی بستی تین چار طرح لکھا جاتا ہے، گانو، گاؤں، گانوں اور گانئوں۔ یہی حال پانْو، چھانْو اور اس قبیل کے دوسرے الفاظ کا ہے۔ اس انتشار کو ختم کرنے کے لیے معیار بندی بیحد ضروری ہے۔

حروفِ علت کی کمی کے فائدے اپنی جگہ ہیں، لیکن اس سے بعض املائی دقّتیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً تیر، تَیر ؛ پیر، پیَر؛ بین، بَین ؛ میرا، میرا ؛ اور میل، مَیل میں جو فرق ہے ؛ یا دور، دَور ؛ طور، طور، چور، چور ؛ مَول، مول ل میں فرق ہے، اسے ہم اعراب کی عدم موجودگی میں سیاق و سباق کی مدد سے سمجھ لیتے ہیں، لیکن واؤ کی تین آوازوں (واؤ معروف واؤ مجہول اور واؤ ماقبل مفتوح) اور ی کی تین آوازوں (یائے معروف، یائے مجہول، یائے ماقبل مفتوح) کے صوتی اور املائی امتیازات عام طور سے نہ پڑھانے والوں کے ذہن میں واضح ہوتے ہیں، نہ پڑھنے والوں کے۔ زیر، زبر، پیش، اور الف مد ملا کر اُردو کے کل دس مصوّتے ہوئے۔ ان دس مصوّتوں کا اعرابی نظام ابھی تک مُسلّم نہیں، اور قاعدوں اور ابتدائی کتابوں میں عجیب و گریب انتشار ملتا ہے۔

املا نامہ میں تمام مسائل پر توجہ کی گئی ہے، اور پورے غور و خوض اور بحث و تمحیص کے بعد، سادہ اور صاف زبان میں سفارشیں پیش کی گئی ہیں، نیز پہلی بار اُردو کے دس مصوّتوں کے لیے اِعرابی نظام پیش کیا گیا ہے جو سہل بھی ہے اور سائنٹِفک بھی۔

آزادی کے بعد املا کی اصلاح و تنظیم کی طرف پھر سے توجہ ہوئی۔ کئی ذہنوں نے ان مسائل کو وہیں سے لیا جہاں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے انھیں چھوڑا تھا۔ نیز یہ احساس بھی عام ہوا کہ املا کے بارے میں سوچتے ہوئے محض صوتیات ہی سے نہیں، سماجی لسانیات سے بھی مدد لینی چاہیے، زبان کی صوتیات اس کی سماجیات سے ہٹ کر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بعض حضرات نے اُردو رسم الخط کو خالص صوتی بنیادوں پر ڈھالنے میں یہی غلطی کی تھی۔ ڈاکٹر جافر ہسن کا صوتی املا (جس کی سیّد ہاشمی فرید آبادی اور سیّد اختر حسین رائے پوری نے بھی کسی حد تک تائید کی تھی) چونکہ اُردو کے تاریخی ارتقا اور سماجی ضرورتوں کا اتنا احساس نہیں رکھتا تھا جتنا ضروری ہے۔ نیز اس میں رواج اور چلن سے بھی صرفِ نظر کیا گیا تھا، اس لیے جزوی طور پر بھی قبول نہ ہو سکا زبان کے معاملے میں صدیوں کے چلن اور سماجی ضرورتوں اور عام استعمال سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔ سجّاد مرزا اور ہارون خان شروانی نے اُردو ٹائپ اور طباعت کے لیے جو کوششیں کیں (اُردو رسمِ خط اور طباعت، حیدر آباد، ۱۹۵۷ء) ان میں بالواسطہ طور ہی پر سہی، املا کے نکات بھی زیرِ بحث آئے۔ اُردو کے نام سے غلام رسول نے ایک کتابچہ ۱۹۶۰ میں حیدر آباد سے شائع کیا۔ عبد الغفار مدہولی نے اپنے تدریسی تجربوں کی بنا پر اُردو املا کا آسان طریقہ رائج کرنے لیے متعدد تحریریں لکھیں، اور اسی نام سے ۱۹۶۳ء میں دہلی سے ان کا ایک کتابچہ بھی شائع ہوا۔ اس زمانے میں سیّد احتشام حسین اور آل احمد سرور نے بھی بعض اصلاحات کے لیے ذہنی فضا تیار کرنے میں مدد دی۔ ڈاکٹر گیان چند جین اور راقم الحروف نے اپنے مضامیں میں صحتِ املا کے لیے جامع سائنسی اصولوں کو اپنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ رشید حسین خاں بھی املا کے مسائل پر برابر غور و فکر کرتے رہے اور لکھتے رہے۔ ۱۹۷۳ء میں ترقی اُردو بورڈ نے ڈاکٹر سیّد عابد حسین کی صدارت میں املا کمیٹی مقرر کی۔ راقم الحروف اور رشید حسن خان اس کے رکن مقرر کیے گئے۔ رشید حسن خاں اُردو املا پر اپنی کتاب لکھنے میں مصروف تھے۔ کمیٹی کی متعدد نشستوں میں ڈاکٹر عبد السّتّار صدیقی اور انجمن کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کی مجوزہ اصلاحات اور دوسرے مسائل پر غور و خوض ہوا، بنیادی اصول طے کیے گئے اور سفارشات مرتب کرنے کا کام راقم الحروف کو سونپا گیا۔ رشید حسن خاں نے اُردو املا پر عالمانہ اور مبسوط کتاب لکھی جس میں بنیادی اُصولوں کی وضاحت کی گئی، مختلف عنوانات کے تحت ضروری الفاظ کی فہرستیں شامل کی گئیں۔ اور لغات میں پائے جانے والے انتشار اور غلط نگاری کا تفصیلی جائزہ لے کر ترجیحی صورتوں کا تعیّن کی گیا۔ لیکن واضح رہے کہ کتاب ایک فردِ واحد کا کام ہے۔ کمیٹی نے اُن کے کام اور اُن کے مشوروں سے استفادہ کیا، لیکن جس طرح کمیٹی نے ڈاکٹر عبد السّتّار صدیقی اور انجمن کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کی کئی اصلاحات کو رد کر دیا، رشید حسن خاں کی بعض باتوں سے بھی کمیٹی باوجود کوشش کے متفق نہ ہو سکی، اور املا نامہ میں متعدد سفارشیں اُن سے ہٹا دی گئیں۔

املا نامہ طبعِ اول (۱۹۷۴ء) میں زیادہ تر ان اصلاحات کو اپنایا گیا جو انجمن ترقی اُردو کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط (۱۹۴۳ -۴۴ء) نے پیش کی تھیں یا جن کی وضاحت ڈاکٹر عبد الستّار صدیقی نے اپنے مضامین اور تحریروں میں کرتے رہے تھے۔ ترقی اُردو بورڈ کی املا کمیٹی کو بعض مقامات پر بنیادی نوعیت کا اختلاف تھا۔ جس کی نشان دہی کر دی گئی تھی مثلاً وہ اصلاحات جو انقلابی تبدیلیوں پر مبنی تھیں۔ جیسے مصدر یا کسی صیغے کے آخر میں جو نا، تا وغیرہ آتے ہیں، وہ مادّے سے جدا کر کے لکھے جائیں، جیسے لکھ نا، لکھ تی، لکھ تے، لے نا، اٹھ تیں، بھج وانا، سے تا، یا بالکل کو بلکل یا خوش کو خُش لکھا جائے، یا نون غُنہ کو منفصل لکھا جائے، جیسے پھان س، بان س، سن گھاڑے۔ یا ی کو بھی مثل الف اور واؤ الگ لکھا جائے، جیسے بی ن، بی ر، پی ر، پھ ر۔ یا یہ کہ عربی کے ہم آواز حروف جن کی تین یا چار شکلیں آتی ہیں، ان کو گھٹا کر صرف دو شکلوں پر اکتفا کیا جائے یعنی ث، ص، س میں سے ص کو اور ز، ذ ض اور ظ میں سے ذ اور ض کو حذف کر دیا جائے۔ یا ہمزہ جب منفصل حرف کے بعد آئے تو بالکل جدا لکھا جائے۔ جیسے لا، ی، جا، ی، داءِ رہ، کو، ی، سو، یاں، زاءِ ل، قاءِ ل۔ طائرِ، زائدِ، سناءِ ی، آء ی، یا مصیبت کو مصی بت، گھر کنا کو گُھر ک نا، اور قرینہ کو قری نہ لکھا جائے ؛ یا ڑھ کو ڑھ، ڈھ کو ڈھ یعنی ملا کر دھ رتی بجائے دھرتی، ادھ ورا بجائے ادھورا لکھا جائے، ایسی تبدیلیاں چونکہ رواج اور چلن میں نہیں آ سکتی تھیں، اور ناقابلِ عمل تھیں، اس لیے ان کو نظر انداز کر دیا گیا۔

سفارشات پیش کرتے ہوئے مندرجہ ذیل رہنما اصول سامنے رہے:

  1. صحتِ املا کے جو اصول اب تک سامنے آ چکے ہیں، اور محتاط اہلِ قلم کے ہاں جن پر عمل بھی ہو رہا ہے، ان کو علمی، صوتی اور لسانیاتی نظر سے پرکھا جائے اور سائنٹفک طور پر منضبط و منظّم کر کے پیش کیا جائے۔
  2. اُردو کے صدیوں کے چلن اور رواج کو پوری اہمیت دی جائے اور استعمالِ عام کی روشنی میں ترجیحی صورتوں کا تعیّن کیا جائے۔
  3. املا میں کوئی تبدیلی ایسی تجویز نہ کی جائے جو اُردو کی علمی میراث، اس کی تاریخ، مزاج اور سماجی ضرورتوں کے نقطہ نظر سے نا قابلِ عمل ہو۔
  4. عربی فارسی سے ماخوذ اُردو ہماری لسانی میراث کا جزو بن چکے ہیں۔ انھیں کی بدولت ہزاروں الفاظ کی بیش بہا دولت ہمیں ودیعت ہوئی جو زبان کا جزوِ لاینفک ہے۔ اس سرمائے کا تحفّظ ہمارا فرض ہے۔
  5. عربی کے جو مرکبات، عبارتیں یا مکمل اجزا، اُردو میں مستعمل ہیں، انھیں اصل کی طرح لکھنا چاہیے۔
  6. املا کے اصولوں کا تعیّن کرتے ہوئے وسیع تر عام زبان پر نظر رکھی گئی ہے۔ محض شعری زبان پر نہیں (شاعری میں ضرورتِ شعری کے تحت لفظوں کو کبھی اشباع اور کبھی تخفیف کے ساتھ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، عام زبان میں لفظ کی متعیّنہ شکل ہی استعمال ہوتی ہے۔
  7. جہاں مروّجہ قاعدوں سے کوئی مدد نہیں ملی یا املائی انتشار حد سے بڑھا ہوا ہے، وہاں معیاری تلفّظ کی پیروی پر اصرار کیا گیا معیاری تلفّظ کو بنیاد بنانے سے ایسے بہت سے مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔
  8. سفارشات کو پیش کرنے میں قدیم علمِ ہجا سے بھی مدد لی گئی، اور جدید صوتیات و سماجی لسانیات سے بھی۔ اُردو ایسی پیچیدہ اور متنوع زبان ہے۔ کہ کسی ایک نقطہ نظر کو اپنا کر اس کے املا سے پورا پورا انصاف کرنا ناممکن ہے۔ چنانچہ وسیع تر طریقہ کار کو اپناتے ہوئے جہاں سے بھی جو روشنی مل سکتی تھی، لی گئی۔

زیرِ نظر صفحات میں قدیم روایت کا تسلسل بھی ملے گا اور جدید فکر کی سائِنٹِفک توجیہ بھی۔ صوتیات کے کئی تصورات ایسے کہ انھیں قدیم اصطلاحوں میں پیش کیا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ دقّت بعض امور سے بحث کرتے ہوئے بار بات محسوس ہوئی، جس کی وجہ سے ایک طرح کا مفاہمتی رویّہ اختیار کرنا پڑا۔ ایسا اس لیے بھی ضروری تھا کہ زیرِ نظر سفارشات صرف ماہرین اور محقّقین کے لیے نہیں، بلکہ اُردو کے عام لکھنے پڑھنے والوں کے لیے بھی ہیں۔ جن میں طالب علم، ادیب، شاعر، صحافی، خوش نویس، ٹائپسٹ، نقل نویس، پروف پڑھنے والے، سبھی شامل ہیں۔ ان مباحث کے لیے زبان جتنی زیادہ سے زیادہ آسان اور عام فہم اختیار کی جا سکتی تھی، کی گئی ہے۔ مثالیں ہر جگہ دی گئی ہیں۔

دنیا کی شاید ہی کوئی ترقی یافتہ زبان ہو جس کا املا پوری طرح صوتی ہو۔ حروف کی صوتی اقدار سے عدم مطابقت کئی زبانوں میں ملتی ہے۔ اُردو میں حروفِ صحیح آوازوں سے زیادہ ہیں، اور حروفِ علّت آوازوں سے کم۔ اس سے کچھ پیچیدگیاں تو پیدا ہوتی ہیں، لیکن ان سے مفر بھی نہیں۔ اس کمیٹی کا کام اُردو املا میں تبدیلیاں کرنا نہیں تھا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ املا میں جو بے اعتدالیاں اور بے قاعدگیاں راہ پا گئی ہیں، ان کو دور کیا جائے اور صحت اور اصول کی راہ دکھائی جائے۔ راقم الحروف اُن سب حضرات کا ممنون ہے جنھوں نے اپنے قیمتی مشوروں سے مستفید ہونے کا موقع دیا۔

نئی دہلی
مارچ ۱۹۷۴ء
گوپی چند نارنگ