نون اور نون غُنّہ
- گنبد، انبار، کھمبا، چمپا
- گِننا، سُننا
- نون غُنّہ
- سِنچائی، بٹائی
- گانو، پانو، گاؤں، پاؤں
- مہندی، مہنگی
- چانول، گھاس
گنبد، انبار، کھمبا، چمپا
کسی لفظ میں نون کے بعد ب ہو تو نون کی آواز م میں بدل جاتی ہے۔ لکھنے میں تو نون ہی آتا ہے، لیکن پڑھا م جاتا ہے، جیسے
- گنبد
- انبار
- جنبش
- دنبہ
- شنبہ
- تنبورہ
- سنبل
- عنبر
اس ضمن میں دقت دیسی الفاظ میں پیدا ہوتی ہے جن میں کچھ تو نون سے لکھے جاتے ہیں اور کچھ کو م سے لکھنے کا رواج ہے۔ سفارش کی جاتی ہے کہ ایسے دیسی الفاظ (علاوہ ناموں کے، انبار، کنبوہ) میم سے مرجح ہیں:
- تمباکو
- تمبولی
- کھمبا
- اچمبھا
- چمپا
- امبر (بمعنی آسمان)
(لیکن جہاں نون ساکن غیر وصلی ہو، وہ نون کی آواز دے گا، اور نون ہی لکھا جائے گا، مثلاً کنبہ)
گِننا، سُننا
اردو میں کئی مصدر ہیں جن میں دو نون ہیں، جیسے بُننا، گِننا، سُننا۔ ان میں ایک نون تو مادہ فعل کا ہے، دوسرا علامتِ مصدر کا (بُن + نا، سُن + نا)۔ اکثر غلطی سے ایسے مصدروں کو مشدّد نون سے لکھا جاتا ہے (بُنّا، گِنّا، سُنّا)۔ اصول یہ ہے کہ ایسے تمام مصدروں میں دو نون لکھنے چاہییں۔ اس سے ذیل کے جوڑوں میں املا کا امتیاز بھی ملحوظ رہے گا:
- بَننے (فعل)، بنّے (لقب)
- چُننی (فعل)، چُنّی (دوپٹہ)
- سُننی (فعل)، سُنّی (فرقہ)
نون غُنّہ
ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ”نون غنّہ ہمیشہ منفصل لکھا جائے“ (بانس، پھانس، ہنسے گا)۔ عام قاعدہ ہے کہ لفظ کے آخر میں نون غُنّہ بغیر نقطے کے لکھا جاتا ہے۔ البتہ (ابتدائی کتابوں میں یا جب ضرورت ہو) لفظ کے بیچ میں نون غنہ کو اُلٹے قوس کی علامت سے ظاہر کرنا چاہیے:
بیچ میں:
- ہون٘ٹ
- پھان٘د
- این٘ٹ
- چون٘چ
- چان٘د
آخر میں:
- ماں
- جاؤں
- بولیں
- نظروں
- کتابیں
سِنچائی، بٹائی
لفظ کے مادّے یا مصدر میں جہاں نون غنّہ ہے، ماخوذ شکلوں میں کہِیں تو نون غنّہ لکھا جاتا ہے، اور کہِیں نہیں، زیادہ تر یہ صورت متعدی (causative) شکلوں میں پیدا ہوتی ہے، جیسے باندھنا، بندھوانا اور ڈھونڈوانا یا پھینکنا سے پھنکوانا اور پھنسنا سے پھنسوانا، اس بارے میں صوتی حقیقت یہ ہے کہ اگر نون غنّہ کے بعد مسموع (voiced) آواز ہے تو نون غنّہ پورا ادا ہو گا جیسے بندھوانا، ڈھونڈوانا، اور اگر نون غنہ کے بعد غیر مسموع (unvoiced) آواز ہے تو غُنّیت کمزور پڑ جائے گی جیسے پھنکوانا، پھنسوانا میں، تاہم چونکہ ان لفظوں میں غنّیت ہے، خواہ ضعیف کیوں نہ ہو، ایسے تمام لفظوں میں نون غنّہ لکھنا چاہیے:
- سینچنا سے: سنچوانا، سِنچائی
- ہنسنا سے: ہنسوانا، ہنسائی
- کھینچنا سے: کھنچوانا، کھِنچائی
البتہ ذیل کے ماخوذ لفظوں میں غیر مسموع آواز سے پہلے کی ضعیف غنّیت بھی اردو کے ارتقائی سفر میں زائل ہو چکی ہے، نتیجتاً یہ لفظ نون غنّہ کے بغیر رائج ہو گئے اور یہی صحیح ہے:
- بانٹنا سے: بٹنا، بٹوانا، بٹانا، بٹوائی، بٹوارا
- پونچھنا سے: پچھوانا، پچھنا
- جانچنا سے: جچنا
- چھانٹنا سے: چھٹوانا، چھٹنا، چھٹنی، چھٹائی
گانو، پانو، گاؤں، پاؤں
اردو میں یہ الفاظ کئی طرح سے لکھے جاتے ہیں، جیسے گانو، گاؤں، گانوں، گانئوں، اس انتشار کو دور کرنے کے لیے ان کا ایک املا اختیار کرنا ضروری ہے، دیکھا جائے تو اردو میں گاؤں (اسم) اور گاؤں (مضارع گانا سے) دونوں نون غنّہ سے بولے جاتے ہیں، گانو، پانو، ان لفظوں کا قدیم املا ہے جس کو اردو ترک کر چکی ہے، اس پر اصرار کرنا ایک طرح سے رجعتِ قہقری ہے، چنانچہ جو حضرات اس پر اصرار کرتے ہیں، ان کی رائے کو ماننے میں ہمیں تامّل ہے، ایسے تمام لفظوں کو آخری نون غنّہ سے ہی لکھنا مناسب ہے:
- گاؤں
- پاؤں
- چھاؤں
مہندی، مہنگی
ان الفاظ کے رائج املا میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ ان کا املا وہی صحیح ہے جو رواج عام میں ہے:
- مہندی
- مہنگی
- مہنگائی
- لہنگا
- بہنگی
چانول، گھاس
ذیل کے الفاظ نون غنّہ کے ساتھ متروک ہیں، ان کو نون غنّہ کے بغیر لکھنا چاہیے:
- چاول
- گھاس
- پھوس
- سوچنا
- کوچہ
ذیل کے الفاظ نون غنّہ کے ساتھ صحیح ہیں:
- کینچلی
- جھونپڑا
- کنواں